Friday, May 6, 2011

فتنہ عظیم

اسلا م محبت یا خون ریزی



ناصبی اور نوصیری یہ وہ دو فرقے ہیں جن کا بیج استعمار نے قدیم خوارج سے لیا اور سترھویں صدی عسیوی میں ان میں سے فرقہ شیخیہ یا نوصیری کوعراقی شیعہ مسلمانوں میں متعارف کرایا اور دوسرا فرقہ ناصبی یا وہابی کے نام سے سعودی سنی مسلمانوں میں متعارف کرایا عقائد میں یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں اور ہمیشہ اسلام میں فتنے پروری کا با عث بنتے ہیں۔


آنحضرت(ص) کی پیشن گوئی
آنحضرت(ص) نے فرمایا: میری امت پر اضطراب اور انتشار کا ایک ایسا شدید زمانہ بھی آئے گا کہ لوگ اپنے علماءکے پاس (راہنمائی کی امید سے)جائیں گے تو کیا دیکھیں گے کہ وہ بندر اور سور ہیں۔


جہان تک نَجَسُ العَین کی اصطلاح کا تعلق ہے شاید اس جگہ اس حدیث نبوی کا ذکر نا مناسب نہ ہوگا جس میں آنحضرت ﷺ نے کچھ نَجَسُ العَین لوگوں کا ذکر فرمایا ہے ۔ کنزل العمال میں لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میری امت پر ایک زمانہ اضطراب اور انتشار کا آئے گا ۔ لوگ اپنے علماء کے پاس ( رہنمائی کی امید سے ) جائیں گے تو دیکھیں گے کہ وہ تو بندر اور سؤر ہیں۔اور ایک حدیث میں اس وقت کے علماء کا ذکر یوں ہے کہ وہ آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بد ترین ہو ں گے۔ اسے کہتے ہیں نَجَسُ الْعَین ۔

(منتخب کنزالعمال۔الفرع الثانی فی ذکراشراطہاالکبریٰ جلد 6صفحہ 28۔بر حاشیہ مسند احمد بن حنبل۔ دارالفکر للطباعتہ والنشر مصر)

ناصبیت کا فتنہ
یہ فتنہ پرور ٹولہ )خوارج( ہمارے اہلسنت مسلمان بھائیوں کی صفوں میں گھس چکا ہے اور اپنے ناپاک عزائم پر عمل پیرا ہے۔انکی خاص نشانی یہ ہے کہ یہ حضرت محمد(ص) ور ان کے اہل بیت سے نفرت کرتے ہیں اور اہل بیت اور انکے ہمدردوں کے خلاف زہریلا اور بے بنیاد پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں۔مثلاً کبھی کہتے ہیں کہ سنی قبر پرست ہیں اورشیعہ قرآن کو نہیں مانتے ،صحابہ کرام(ر) کے دشمن ہیں اور نہ جانے کیا کیا زہر اگلتے ہیں، مگراگر ہم سنی اور شیعہ مجتہدین اور علماء کی طرف رجوع کریں جو کہ مذہب اہل سنت شیعہ کے خواص ہیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ سب باتیں صرف اور صرف پروپیگنڈا ہیں اور اس سلسلے میں جتنے بھی علمائے اہل سنت اور شیعہ اکابرین کی کتب کا مطالعہ کیا جائے اور اُن سے ملاقاتیں کیں جاہیں تووہ سب کے سب ان پروپیگنڈا سے متاثر نہیں ہوتے۔ فتنہ پرور ٹولہ کا ایک مقصد تو اہل بیت سے نفرت کا اظہار ہے اور دوسری طرف مساجد مزاروں جلوسوں میں انہی اہل بیت کے ہمدردوں کاخاتمہ کرنا ہے۔یہ فتنہ پرور ٹولہ کے فتنے کو سمجھتے ہوئے بہت سے ممتاز اہل سنت علماء نے شیعہ مجتہدین سے ملاقاتیں کیں اور مذہب شیعہ کو سمجھا اور اسکے بارے میں عوام کو بھی آگاہ کیامگر ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل سنت اور فقہ شیعہ کے عوام الناس تاریخ اسلام اور ان کتب تک رسائی حاصل کرے اور اس فتنہ پرور ٹولہ کے پروپیگنڈا سے بچے۔اس سلسلے میں بہت سے اہل سنت علماء کے نام ہیں مثلاً شیخ الازھر جناب محمود شلتوت،ڈاکٹر مصطفی، علامہ شیخ غزالی،جناب احمد ابراہیم بیگ تربیتی کالج مشہور زمانہ جامع الازھر مصر کے پرنسپل ،بین الاقوامی ادارہ تحقیقات علم الاجتماع کے ممبر ڈاکٹر علی عبدالواحدوافی اور بہت سے دوسرے علمائے اہل سنت بھی شامل ہیں۔ان اہل علم افراد نے شیعہ فقہ کو خود پڑھا اور اختلافی مسائل کو خود علماء و مجتہدینِ شیعہ سے پوچھا اور اہل تشیع پر لگائے گئے الزامات اور پروپیگنڈا کی کھل کر تردید کی اور شیخ الازھرجناب شیخ محمود شلتوت صاحب کا تاریخی فتویٰ تو بہت مشہور ہے کہ’’فقہ جعفریہ جو فقہ اثناء عشریہ کے نام سے معروف ہے جسے اہل سنت کے باقی فقوں کی طرح شرعاً اختیارکیا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اسکو سمجھیں اور کسی فقہ کے ساتھ ناحق تعصب کرنے سے خود کو پاک کریں۔اﷲ کا دین اور اسکی شریعت کسی ایک فقہ کے تابع اور کسی ایک فقہ میں منحصر نہیں ہے لہذا سب کے سب اﷲ کی بارگاہ میں مقبول ہیں۔ ‘‘ اس تاریخی فتوے کی تفصیلات ملاحضہ ہو ڈاکٹر اسلام محمود مصری کا مقالہ ’’الشیعہ و السنہ‘‘شائع کردہ جامعہ المعارف اسلامیہ جی ٹی روڈ پشاور۔عرب ممالک کے علماء کی طرح ہندوستان کے علماء نے بھی اس سلسلے میں تحقیقات کیں اور فرقہ پرستی کے خلاف پروپیگنڈا اور غلط فہمیوں کی تردید کی جن میں علامہ رحمت اﷲ ہندی نے اپنی کتاب ’’اظہار الحق‘‘،علامہ حافظ اسلم جیرا جپوری(سابق استاد جامع ملیہ دھلی)نے ’’تاریخ القرآن‘‘ میں،شیخ التفسیر جامع اسلامیہ بہالپور نے ’’علوم القرآن‘‘میں اور اسی طرح اور بھی علماء نے تحقیقی بیانات نقل کیے ہیں۔مگر اہل سنت عوام میں ابھی بھی بہت سی غلط فہمیاں موجود ہیں جسکی وجہ خود سے تحقیق لازمی امر ہے۔





نصیریت کا فتنہ
یہ بھی بے دین اور گمراہ ٹولہ جو دائرہ اسلام سے خارج ہے ہمارے اہل تشیع مسلمانوں کی صفوں میں گھس گیا ہے اور اسکے اہداف بھی خوارج سے الگ نہیں ہیں۔یہ ٹولہ حضرت محمد(ص) کے اہل بیت کو حد سے بڑھاچڑھا کر پیش کرتا ہے اور ان مقدس ہستیوں کو(نعوذ باﷲ) خدائی درجے پر فائز کرتا ہے۔یہ لوگ حضرت علی المرتضیٰ کے دور میں بھی موجود تھے،انھی جیسوں کے متعلق آپ کا فرمان ہے کہ ’’میرے بارے میں 2طرح کے لوگ گمراہ ہوں گےایک وہ جو مجھے حد سے گرادیں اور دوسرے وہ جو مجھے حد سے بڑھا (کر خدائی عہدے پر بٹھا دیں)دیں۔لہذا یہ نصیری ٹولہ شیعوں کی صفوں میں گھس کر ایک طرف تو اپنے عقائد کہ اہل بیت رزق دیتے ہیں،موت و حیات پر قادر ہیں،اﷲ تعالیٰ اپنے امور میں محمد(ص) و آل محمد(ص) کے مشوروں کا محتاج ہے اور اسی طرح کے گمراہ کن عقائدکی تبلیغ کرتے ہیں اور دوسری طرف صحابہ کرام(ر) اور امہات المومنین پر سرعام تبرا(لعنت)کرتے ہیں تاکہ اہل سنت مسلمانوں کو یہ دکھایا جاسکے کہ اہل تشیع صحابہ کرام(ر) اور ازواجِ پیغمبر(ص) کے دشمن ہیں اور اسطرح دونوں مسلمان بھائیوں کو ایکدوسرے سے لڑوایا جاسکے اور تاکہ اسلام کے ٹکڑے ٹکڑے کیے جاسکیں۔یہ فتنہ پرور ٹولہ شیعوں اور اہل سنت میں تصادم چاہتا ہے اور ایک طرف تو صحابہ کرام(ر) اور امہات المومنین پر سرعام تبراکرتا ہے اور دوسری طرف شیعوں میں یہ پروپیگنڈا کرتا ہے کہ اہل سنت کے پیروکار نبی اکرم(ص) کی اہل بیت سے محبت نہیں کرتے اورایک طرف اس پالیسی پر بھی عمل کررہا ہے کہ خودشیعوں میں عقائد کی جنگ کرواکر شیعوں کو آپس میں لڑوائے۔فتنہِ نصیریت سے جہاد کرنے کے لیے علمائے شیعہ نے بھی اپنا بھر پور کردار ادا کیا اور کر رہے ہیں۔اہل تشیع کے سب سے بڑے عالم و مجتہد اور رہبر آیت اﷲ سید علی خامنہ نے کئی مقامات پرسنی شیعہ وحدت کے عنوان سے خطابات کیے ،پاکستان کے مشہور شیعہ عالم دین مولاناسیدجان علی شاہ کاظمی نے مسلمانوں کو فتنہِ نصیریت اور فتنہِ خوارج کے متعلق ثبوتوں کے ساتھ آگاہ کیا جس پر انھیں مشرف دور میں وطن بدر کردیا گیاتھا،علامہ سید حسن ظفر نقوی،علامہ ذکی باقری،علامہ محمد حسین نجفی اور دیگر کئی علماء کرام اہل سنت اور اہل تشیع کے مابین غلط فہمیوں کو دور کرنے اور انھیں اتحاد بین المسلمین کی ضرورت و اہمیت پر قائل کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔

فقہ ‎شیعہ اوراس کے اصولِ اسلام تین ہیں:
1۔ توحید
2۔ رسالت
3۔ قیامت
اور دو اصولِ مذہب یا اصولِ ایمان ہیں:
4- عدل
5۔ امامت
عقیدہ: جو شخص کسی بھی اعلٰی یا ادنٰی مخلوق کو خالق کہتا ہے یا کسی بندے کو خدا کہتا ہے وہ ‏غالی ہے، دشمنِ خدا ہے اور خارج از اسلام ہے۔
آپ اپنے مسلک پر ہی قائم رہو مگر مسلمانوں کے دوسرے مسالک کے عقائد سے بھی آگاہ رہیں تاکہ کوئی فتنہ پرور بہکا کر آپ کو کسی دوسرے مسلک کے مسلمان سے گمراہ نہ کردے۔اس سلسلے میں 2گمراہ اور بے دین مسلک مسلمانوں کی صفوں میں گھس گئے ہیں ۔

قرآن و سنت سنٹر :Q।S.C Media Blog



Sunday, April 24, 2011

شیعہ سنی اتحاد


شیعہ سنی اتحاد
فرقہ وہابیت کی عمارت دو نظریات پر قائم ہے پہلا ہدف نظریہ ظاہری اور دوسرا ہدف نظریہ باطنی ہے۔ ہدف ظاہری توحید میں اخلاص اور شرک و بت پرستی کے خلاف جنگ پر ہے۔ ہدف ظاہری کو تو یہ لوگ فقط سادہ لو مسلمانوں کے ورغلانے کےلیے اور انکا عقیدہ بدلنے میں استعمال کرتے ہیں۔
مگر ہدف باطنی اس سے بلکل برعکس ہے۔ اسکی بنیاد استعمارکی فرہم کردہ ان شرائط پر ہے جو کہ استعمار نے خلافت عثمانیہ کو ختم کرکے اقتدار ان وہابیوں کے حوالے کرنے کے عیوض دیا تھا۔ استعمار کے ان شرائط میں سر فہرست روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے بڑا مقام شرک ثابت کرنا ہے۔ اور اسکے بعد استعمار کا دوسرا ہدف مسلمانوں کا مرکز خانہ خدا پر حملہ ہے۔
چونکہ براراست روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کرنا انکے لیے ممکن نہیں ہے اسلیے یہ لوگ سادہ لوح مسلمانوں کو ورغلانے کے لیےموت کو فنا اور خاتمہ قرار دیتے ہیں۔ جیسے یہ نظریہ کہ والدین وفات کے بعد کسی دعا فاتحہ یا خیرات کے مستحق نہیں ہیں نہ ہی ان اعمال کا انکو کوصلح ملتا ہے اور نہ ہی انکے قبروں پر دعا اور فاتحہ پڑھنا چائیے۔ یہی وجہ ہے کہ انکے پیرو کار نماز جنازہ پڑھنے کے بعد دفنا کر گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ اس مرحلے تک جب یہ لوگوں کو راضی کر لیتے ہیں تو یہ اپنا دوسرا مرحلہ سالحین اور اولیاء کی قبروں پر اعتراض سے شروع کرتے ہیں۔ یہ اعتراض مزارات پر جانے ان کواللہ سے دعا اور حاجات کا وسیلہ قرار دینے کو شرک و بدعت کہتے ہیں۔ اس عقیدہ پر عمل کرانے کے لیے قتل وغارتگری اور بم دھماکوں سے بھی کام لیتے ہیں۔ جب لوگ انکے اس عمل کو قبول کر لیتے ہیں ۔ تو اس مرحلے کی کامیابی کے بعد یہ لوگ اپنا تیسرا اور خطرناک نظریہ لو گوں کے سامنے رکھتے ہیں ۔ اور وہ ہے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے وقت طلب دعا اور حاجات یا روضہ پاک کو چونے چھومنے کو نعوذوباللہ شرک قرار دینا ہے۔ اور یہی استعمار کی وہ شرط ہے کہ جسکو لوگوں سے منوانے کے لیے والدین کی قبروں سے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک کا ڈرامہ رچایا گیا۔
استعمار کے اس فتنے کا مقابلے کرنے کے لیے شیعہ اور سنی کا اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ جوکہ ایک ممکن عمل ہے ۔ کیونکہ اوائل میں جب یہ فتنے نہیں تھے توسنی حضرات عزہ داری کے دوران سبیلیں لگاتے تھے۔عزہ داروں پر عطر پاشی کرتے تھے ۔ اور آج بھی احترام اہل بیت میں سنی بھی شیعہ حضرات کے ہم پلہ ہیں اوران اختلافات کا ایک درمیانی راستہ نکالنے کے بھی خواہشمند ہیں تاکہ استعمار کے ایجنٹوں کا مل کر مقابلہ کیا جائے۔ اگر اسوقت بھی علماء نے ہوش سے کام نہ لیا تو نہ سنی رہے گا نہ شیعہ اور نہ پاکستان رہے گا نہ ایران۔ وسلام




اللہ تعالی نے قرآن میں سارے مسلمانوں کو ایک ہی جھنڈے تلے اکٹھے ہونے کاحکم دیاہے اورفرمایا

،،واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولاتتفرقوا،،


آج عالم اسلام میں تشدد واختلاف پایاجاتاہے؛ ہمیں دیکھناچاہیے کہ کن مسائل پراختلاف ہے اور ان کاحل کیاہے؟
ان کے مطابق شیعہ وسنی کے درمیان اختلافات زیادہ تر اجتہادی وفقہی ہیں۔ یہ اتنابڑا مسئلہ نہیں، اس لیے کہ اہل سنت کے درمیان بھی فقہی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ بعض اختلافات ایسے ہیں جواسلام کے دشمنوں نے پیدا کیے ہیں تاکہ فرقہ واریت کوہوا دیں۔ مثلا یہ بات ذہنوں میں ڈالی گئی کہ اہل سنت والجماعت اہل بیت نبوی کے دشمن ہے! کیایہ افواہ حقیقت پرمبنی ہے؟ کیابخاری شریف میں یہ بات آئی ہے؟ کیا اہل سنت کی مستندکتابوں میں اہل بیت، علی، حسن وحسین رضی اللہ عنہم کے فضائل موجودنہیں؟ جی ہاں! فضائل اہل بیت اہل سنت کی کتب میں بھی ہیں۔ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مکالمے کے بارے میں ہے، اسی طرح ایک روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رض کو اپنے جسم کے ٹکرے قراردیا۔یہ روایت شیعہ کتب کے علاوہ اہل سنت کی کتب حدیث میں بھی روایت ہوچکی ہے۔





اسلام کے خلاف سر گر میوں کی تاریخ کے لۓ یہاں کلک کریں
http://www.hakikatkitabevi.com.tr/download/english/14-ConfessionsOf%20ABritishSpy.pdf
CONFESSIONS of A BRITISH SPY and British Enmity Against Islam

Wednesday, April 20, 2011

اسلام میں فرقہ بندیاں


بریلوی دیوبندی تاریخ اور اختلافات

برصغیر میں بریلوی اور دیوبند مسالک میں اختلافات کا سلسلہ تو کئی دہائی پرانا ہے مگر ان میں شدت پاکستان کے قیام کے بعد اور خطہ عرب میں تیل کی دولت آنے کے بعد دیکھی گئی ہے۔
دونوں مسالک کی بنیاد ہندوستان میں پڑی یعنی دیوبند اور رائے بریلی میں۔
تاریخی مطالعے کے مطابق بریلوی مسلک کے لوگوں نے انگریز حکومت کے خلاف جہاد سے انکار کیا اور آج بھی اس کو جاری رکھا ہوا ہے۔
نامور تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کے دس سال بعد دیوبند مدرسہ کا قیام عمل میں آیا، جس کا یہ مقصد تھا کہ چونکہ اب مغلوں کی حکومت نہیں رہی لہذا یہاں مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے ایک پلیٹ فارم بنایا جائے اور اپنی علیحدہ شناخت کو برقرار رکھا جائے۔
’یہ احیائے اسلام کے حامی لوگ تھے، جن کا خیال تھا کہ اسلام میں کافی رسومات داخل ہوگئی ہیں جنہیں نکال کر خالص اسلامی رسومات اور تعلیمات پر عمل کیا جائے۔ دیوبند کے اس نظریے نے بڑی مقبولیت حاصل کی اور نہ صرف ہندوستان بلکہ دیگر مسلم ممالک سے بھی یہاں طالب علم آنے لگے تھے۔‘
ڈاکٹر مبارک علی بتاتے ہیں کہ بریلوی فرقہ بہت بعد میں سامنے آیا۔ ’احمد رضا خان بریلوی جو رائے بریلی سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے انیس سو بیس کے قریب یہ مکتبہ فکر قائم کیا، جن کا یہ موقف تھا کہ ہندوستان میں رہتے ہوئے بہت ساری رسومات چونکہ مسلمانوں نے اختیار کرلی ہیں لہذا اب انہیں نکالنا نہیں چاہیے۔ ان رسومات میں مزاروں کی زیارت، منتیں ماننا، نذرو نیاز، فاتحہ خوانی، اور موسیقی شامل تھیں جنہیں دیوبندی نہیں مانتے تھے۔‘
بقول ڈاکٹر مبارک علی کے اس وقت دیوبند مسلک کے لوگوں کا تعلق دیہات اور نچلے طبقے سے تھا جبکہ بریلوی مسلک کے لوگ شہروں اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔
برصغیر کی تاریخ اور مذہبی علما کے سیاسی کردار کے بارے میں کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ دیوبندی اور بریلوی ایک دوسرے سے ضرور شدید اختلافات رکھتے تھے مگر انگریزوں کے دور حکومت میں قتل و غارت یا اس بنیاد پر ایک دوسرے کو جان سے مارنے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ’یہ شدت پسندی پاکستان بننے کے کئی سال بعد آئی ہےجب اس میں تیل کی دولت شامل ہوئی جس میں اب اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ورنہ انگریزوں کے دور میں یہ ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے بھی دیتے تھے، ایک دوسری مساجد میں نہیں جاتے یا ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے تھے۔‘
ڈاکٹر مبارک علی کا خیال ہے کہ علاقائی پس منظر بھی اس بارے میں اہمیت رکھتا ہے، ان کے مطابق پاکستان میں خیبر پختون خواہ میں کافی لوگ دیوبند مسلک سے تعلق رکھتے ہیں یہاں کے لوگ مدرسوں میں پڑھنے جایا کرتے تھے اس کے بعد انہوں نے اسی طرز کے مدرسے یہاں بھی تعمیر کیے۔اور ان کے اخراجات بیرون سے آنے لگے۔
خیبر پختون خواہ ایک پہاڑی اور خشک علاقہ ہے ان لوگوں کی زندگی میں رنگینی زیادہ نہیں اس لیے انہیں دیوبند خشک نظریہ فکر زیادہ پسند آیا۔ اس کے برعکس بریلوی مسلک میں زندگی کے آثار ہیں۔ وہ نعت خوانی بھی کرتے ہیں ہر تہوار پر خصوصی کھانا پکاتے ہیں نذر نیاز اور خیرات کرتے ہیں اور عرس منایا جاتا ہے۔ دیوبندیوں میں کلچرل پہلو بلکل بھی نہیں اور نہ کوئی رنگینی ہے سواے بارود اور خون کے۔ اس وجہ سے بریلویوں میں ذہنی لحاظ سے زیادہ وسعت ہے جبکہ دیوبند زیادہ تنگ نظر اور خشک ہیں۔‘
ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق تحریک جہاد جو تحریک محمدیہ بھی کہلاتی ہے کے بانی سید احمد شہید جب حج کرنے سعودی عرب گئے تھے تو وہاں انھیں بھی وہابی تحریک سے متاثر کرایا گیا۔واپس آکر انہوں نے سرحد میں سعودی طرز کی حکومت قائم کرنے بھی کوشش وہ بھی وھابی نقطہ نظر کے حامی تھی اور کسی بھی رسم کو نہیں مانتے تھے ان کا علاقے میں کافی اثر رسوخ تھا اور لوگ ان سے متاثر تھے۔
دیگر کئی دانشوروں اور مصنفوں کی طرح ڈاکٹر مبارک علی کی بھی رائے ہے کہ سعودی عرب کا دیوبند مسلک کے فروغ میں اہم کردار رہا ہے۔ بقول ان کے انیس سو ستر کی دہائی میں جب سعودی عرب میں تیل کی پیداوار کے بعد دولت کی ریل پیل ہوئی تو وھابی اسلام پاکستان میں شدت کے ساتھ آیا ہے۔
’بریلیوں کو باہر سے کوئی سرپرستی نہیں ملی۔ اس کے برعکس دیوبندیوں اور وھابیوں کو سعودی سرپرستی ملی۔ ان کے مدرسوں اور علما کے پاس پیسہ اور اس کے ساتھ ان کی اہلحدیث تحریک کی بہت زیادہ سرپرستی ہوئی، جس سے دیوبندی مالی اور سیاسی لحاظ سے زیادہ طاقتور بن کر ابھرے اس مقابلے میں بریلوی تحریک سرپرستی نے ملنے کی وجہ سے طاقتور نہیں ہوسکی۔‘اور مقامی لوگوں کے چندوں پر گزارہ کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق افغان جہاد کی بھی دیوبندیوں نے حمایت کی اور حصہ لیا مگر بریلویوں نے اس کی حمایت نہیں کی۔
جب متحدہ ہندوستان میں یہ مسئلہ اٹھا تھا کہ ہندوستان کو دارالحرب کہنا چاہیے یا دارالاسلام تو بریلوی اس بات کے حامی تھے کہ چونکہ یہاں انہیں مذہبی آزادی ہے لہذا ہندوستان دارالحرب نہیں ہیں۔ اس لیے نہ تو یہاں سے ہجرت کرنا چاہیے اور نہ ہی انگریزوں کے خلاف جہاد کرنا چاہیے۔ موجودہ وقت بھی بریلوی کسی جہادی تحریک میں شامل نہیں۔
حوالہ : بی بی سی نشریات

Friday, April 15, 2011

مزارات

اولیاء اللہ کے مزارات پرخود کش حملے

دہشت گردی کی وارداتوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے ۔ پاکستان میں فوج اورپولیس کے مراکز، عوامی مقاما ت ، غیر ملکی کونصل خانےاور حتی ٰ کہ مساجد اور مزارات بھی دہشت گردی کے واقعات کا نشانہ بنے۔ کون مسجدوں اوراولیاء الله کےمزارات پرخود کش حملےکرکےمومن بن رہا ہے اورکون مومن بننےکی تربیت دےرہا ہے۔ 14 اپريل 2011‎ ... ڈیرہ غازی خان کے قریب سخی سرور کی درگاہ پر حالیہ خود کش حملوں کے بعد حکومتِ پنجاب نے تمام مزارات عشاء کی نماز کے بعد بند کرنے کا حکم جاری کر دیاـ مزارات پر خود کش حملو ں کے حالیہ واقعات میں یکم جولائی ۲۰۱۰ ء کو لاہور میں داتا دربار پر خودکش حملہ ، ۷ اکتوبر ۲۰۱۰ کو کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر حملہ اور ۲۵ اکتوبر ۲۰۱۰ء کو پاک پتن میں بابا فرید گنج شکر کے مزار پرحملہ شامل ہیں ۔


گستاخ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور گستاخ اولیاء

اس ویڈیو پر غور کیجۓ وہ قرآنی آیات جو بتوں کے شرک کے لۓ نازل ہوئی ہیں یہ ان کو اولیاء کے خلاف استعمال کررہاہے اور عوام کو گمراہ کرنے کے لۓ اسکی وضاحت بھی نہیں کررہا

علماء کوانٹر نیٹ پر کوئی لیکچر دینے سے پہلے یہ سوچنا چاۓ کہ وہ باجوڑ کے کسی مدرسے میں اپنے طلباء سے مخاطب نہیں ہیں ـ انصاف سے وہ بات کریں جس سے ڈیزل اور پیٹرول کی بو نہ آۓـ

خبردارکن لوگوں کی وجہ سے آج اسلام ایک متنازعہ مزہب بن گیا ہےـ کن لوگوں کے کارنامے ہیں کہ آج ہمارے نبی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون بناۓ جارہے ہیں کن لوگوں کی وجہ سے داڑھی رکھنا ایک عیب اور مشکوک عمل بن گیا کن لوگوں کی وجہ سے مسلم خواتین کا پردہ اعتراض کا باعث بن گیاـ کن لوگوں کی وجہ سے

کیا یہ کلمہ شریف کی تو ہین نہیں
اسلام پر تلوار کے زور سے پھلنے کا الزام لگا کس جھنڈے پر کلمہ طیبہ اور تلوار کی تصویر ایک ساتھ بنا کر یہ الزام ثابت کرنےکی کوشش کی گئ ہے اسلامی نظام خلافت کے حق میں یہ مولوی کیوں آواز نہیں اٹھاتے اگر مسلمان اسرائیل کے خلاف بولتے ہیں تو ان پر خود کش حملے کون کرتا ہےـ کون لوگ ہیں جو اسلام کو پھیلانے کی بجاۓ فرقہ واریت کو حوا دیتے ہیں کون لوگ ہیں جو تبلیغ اور جہاد دونوں مسلمانوں پر کرتے ہیں

ملا توصیف الرحمان راشدی غیرمقلّد ہے اور تقلید کو شرک کہتا ہے۔ اور سعودیہ میں اپنے آپ کو سلفی ظاہر کر کے دولت جمع کر رہا ہے اور عوام کے عقیدے خراب کر رہا ہے۔ ایران کے خوف سے عرب اپنے ان ذر خرید گما شتوں کے ذریعے ہمارے عقیدے تبدیل کرکے ہم سے شیعہ ایران کا مقابلہ کروانا چا ہتے ہیں تاکہ سر زمین بھی پاکستان اور افغانستان کی ہو اور جانیں بھی صرف دولت عربوں کی ہو جس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہو چکے ہیں۔ اور صوبہ سرحد اور افغا نستان کے لوگوں کی دین دوستی سے فائدہ اٹھا کر آگ اور خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔



Thursday, April 14, 2011

درس قرآن

درس قرآن بڑے بڑے ہوٹلوں میں


متوجہ ہوں درس قرآن کجھور کے پتوں سے بنی ہوئی چٹائیوں یا مسجدوں کے ٹاٹوں پر نہیں بلکہ اب بڑے بڑے ہوٹلز شیرٹن اور میریٹ میں دیجاۓ گی،بڑے شہروں کے پوش علاقوں میں جہاں پر


عمارتوں کے کراۓ لاکھوں میں ہیں ائرکنڈیشن ماحول میں،



یہاں کلک کیجۓ



http://razaemuhammad.123.st/t158-topic
الہدیٰ کی بنیاد ڈاکٹر فرحت ہاشمی نے 1994ء میں اسلام آباد میں رکھی۔ جنھوںنے اسلامیات میں ڈاکٹر آف فلاسفی کی ڈگری اورساتھ ہی گلاسگو یونیورسٹی سے حدیث سائنس میں سپیشلائزیشن بھی کی ہوئی ہے۔ یہ عورتوں کی واحد تنظیم تھی جس نے شروع میں خوشحال گھرانوں کی عورتوں کو اپنی طرف مائل کیا۔ جن میں سے ایک سابق صدر فاروق لغاری کی بیوی ہیں۔ ان کو بھی اس گروپ کے تیزرفتاری سے پھیلنے میں ایک اہم کردار سمجھا جاتا ہے۔ سول سوسائٹی کے سرگرم عمل حارث خلیق کے مطابق الہدیٰ سُنی عورتوں کے لیے ایک موزوں جگہ تھی۔ اہل تشیع گرو ہ کے برعکس سُنی عورتیں سماجی رابطہ پر یقین نہیں رکھتیں اور الہدیٰ بالکل ان کے عین مطابق ہے۔
http://roshnipk.com/blog/?p=301



ذراغور کیجۓ ان سب کے لۓ پیسہ کہاں سے آتا ہے اگر کوئی آپ کے خواتین کو درس قرآن کی دعوت دے تو اسکی تحقیق ضرور کیجۓ




رسو ل ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان پاک میں قرآ ن شریف کے ترجمو ں میں من چاہی فرق کی نشاندھی ۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان خداد پیش گوئیوں کے انتقام میں نجدیوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادوں ، صاحبزادیوں ، ازواج مطہرات جن پر ہمارے ماں باپ قربان اور تمام جلیل القدر صحابہ کے مزارات کو مسمار کیا ( تمام دنیائے اسلام کے احتجاج پر کسی کسی قبر کا نشان بنادیا ، باقی قبور کو سڑکوں وغیرہ میں تبدیل کیا پاکستان میں دیوبندی بھی ایسا ہی چاہتے ہیں )انہی نجدیوں نے تاج کمپنی سے حضور علیہ السلام کے نناوے اسماء قرآن شریف کے آخر میں شائع ہونے بند کرائے اور اب حال ہی میں گستاخ رسول وہابیوں نے امام اہلسنت کے ترجمہ القرآن پر پابندی لگاکر ( کہ جہاں ملے اُسے پھاڑ دو یا جلادو کا حکم صادر کرکے ) اپنی آتش حسد سرد کرنے اور مسلمانوں کے دلوں میں آگ بھڑکانے کی کوشش کی اور جو ان گستاخوں کے دلوں میں ہے وہ اس سے بھی کہیں زیادہ جن نجدیوں کو مسجد نبوی سے متصل حضور انور کا روضہ گوارا نہ ہو اور آئے دن اس کو منتقل کرنے کے منصوبے بناتے ہیں ۔ پھر اہلسنت کا ترجمہ ان کی آنکھوں میں کیوں نہ خار کی طرح کھٹکے ؟ اُن کو وہی علماء پسند ہیں جو بتوں کی آیات انبیاء اور اولیاء پر چسپاں کریں اور وہی تراجم ان کو پسند ہیں جن میں خیانت کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت مجروح کی گئی ہو ۔

مختلف علماء کے تراجم پیش ہیں فیصلہ آپ خود کریں۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ترجمہ : اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا ( اعلٰی حضرت )
ترجمہ : شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ( شاہ عبد القادر )
ترجمہ : شروع کرتا ہوں میں ساتھ نام اللہ بخشش کرنے والے مہربان کے ( شاہ رفیع الدین )
ترجمہ : شروع اللہ نہایت رحم کرنے والے کے نام سے ( عبد الماجد دریا بادی دیوبندی )
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑے مہربان نہایت رحم والے ہیں ( اشرف علی تھانوی دیوبند


ایاک نعبد و ایا ک نستعین (پ1، سورۃ فاتحہ، آیت४

ترجمہ) ہم تجھی کو پوجیں اور تجھی سے مدد چاہیں۔ ( اعلٰی حضرت )
ترجمہ) ترامی پر ستم واز تومدمی طلہم (شاہ ولی اللہ )
ترجمہ) ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ ( فتح محمد جالندھری)
ترجمہ) تجھ ہی کو عبادت کرتے ہیں ہم اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ہم۔ ( شاہ رفیع الدین محمود الحسن دیوبندی)
ترجمہ) ہم آپ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور آپ ہی سے درخواست اعانت کرتے ہیں۔ ( اشرف علی تھانوی دیوبندی




ولما یعلم اللہ الذین جاھدوامنکم ۔ (پارہ 4 سورۃ آل عمران آیت 142 )
ترجمہ : اور ابھی اللہ نے تمہارے غازیوں کا امتحان نہ لیا ۔ ( سیدی اعلٰی حضرت)
ترجمہ : اور ابھی معلوم نہیں کئے اللہ نے جو لڑنے والے ہیں تم میں (شاہ عبدالقادر )
ترجمہ : حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو تو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ ( فتح محمد جالندھری دیوبندی )
ترجمہ : وہ ہنوز تمیز نساختہ است خُدا آں را کہ جہاد کردہ انداز شما ۔ ( شاہ ولی اللہ )
ترجمہ : حالانکہ ابھی اللہ نے ان لوگوں کو تم میں سے جانا ہی نہیں جنہوں نے جہاد کیا۔(عبدالماجد دریابادی دیوبندی )
ترجمہ : اور ابھی تک اللہ نے نہ تو اُن لوگوں کو جانچا جو تم میں سے جہاد کرنے والے ہیں ۔ (ڈپٹی نذیر احمد دیوبندی )
ترجمہ : حالانکہ ہنوزاللہ تعالٰی نے اُن لوگوں کو تو دیکھا ہی نہیں جنہوں نے تم میں سے جہاد کیا ہو ۔ ( تھانوی دیوبندی )
ترجمہ : اور ابھی تک معلوم نہیں کیا اللہ نے جو لڑنے والے ہیں تم میں ۔ ( دیوبندی محمود الحسن )

ویمکرون ویمکراللہ واللہ خیرالمٰاکرین۔ (پارہ 9 سورۃ الانفال آیت 30)
ترجمہ : اور وہ اپنا سا مکر کرتے تھے اور اللہ اپنی خفتہ تدبیر فرماتا تھا اور اللہ کی خفیہ تدبیر سب سے بہتر ۔ ( سیدی اعلٰی حضرت )
ترجمہ : اور وہ بھی فریب کرتے تھے اور اللہ بھی فریب کرتا تھا اور اللہ کا فریب سب سے بہتر ہے ۔ ( شاہ عبدالقادر )
ترجمہ : اور مکر کرتے تھے وہ اور مکر کرتا تھا اللہ تعالٰی اور اللہ تعالٰی نیک مکر کرنے والوں کا ہے ۔ ( شاہ رفیع الدین )
ترجمہ : وایشاں بد سگالی می کردند و خدا بد سگالی می کرد ( یعنی بایشاں ) وخدا بہترین بد سگالی کنندگان است۔ ( شاہ ولی اللہ )
ترجمہ : اور وہ بھی داؤ کرتے تھے اور اللہ بھی داؤ کرتا تھا اور اللہ کا داؤ سب سے بہتر ہے ۔( محمود الحسن دیوبندی )
ترجمہ : اور حال یہ کہ کافر اپنا داؤ کر رہے تھے اور اللہ اپنا داؤ کررہا تھا اور اللہ سب داؤ کرنے والوں سے بہتر داؤ کرنے والا ہے ۔ ( ڈپٹی نذیر احمد )
ترجمہ : اور وہ تو اپنی تدبیر کر رہے تھے اور اللہ میاں اپنی تدبیر کر رہے تھے اور سب سے زیادہ مستحکم تدبیر والا اللہ ہے۔( تھانوی دیوبندی




ووجدک ضالا فھدیٰ ( پ 30، سورۃ والضحٰی، آیت7)
ترجمہ: اور تمہیں اپنی محبت میں خود رفتہ پایا تو اپنی طرف راہ دی۔ ( اعلٰی حضرت*)
ترجمہ: اور پایا تجھ کو بھٹکتا پھر راہ دی۔ (شاہ عبدالقادر)
ترجمہ: اور پایا تجھ کو راہ بھولا ہوا پس راہ دکھائی۔ (شاہ رفیع الدین*)
ترجمہ: دیافت تراراہ گم کردہ یعنی شریعت نمی دانستی پس راہ نمود۔( شاہ ولی اللہ*)
ترجمہ: اور آپ کو بے خبر پایا سو رستہ بتایا۔ ( عبدالماجد دریا بادی دیوبندی*)
ترجمہ: اور تم کو دیکھا کہ راہ حق کی تلاش میں بھٹکے بھٹکے پھر رہے ہو تو تم کو دین اسلام کا سیدھا راستہ دکھا دیا۔ ( دیوبندی ڈپٹی نزیر احمد)
ترجمہ: اور اللہ تعالٰی نے آپ کو ( شریعت سے) بے خبر پایا سو آپ کو شریعت کا راستہ بتلا دیا۔ ( اشرف علی دیوبندی تھانوی )
ترجمہ: اور تم کو بھٹکا ہوا پایا اور منزل مقصود تک پہنچایا۔ ( مقبول شیعہ




ماضل صاحبکم وما غوٰی ( پ28، سورۃ نجم ، آیت2)
ترجمہ: آپ کے صاحب (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) نہ گمراہ ہوئے اور نہ بے راہ چلے۔ جب ایک مقام پر ربّ کریم گمراہ اور بے رہی کی نفی فرما رہا ہے تو دوسرے مقام پر خود ہی کیسے گمراہ ارشاد فرمائے گا؟




انا فتحنا لک فتحا مبینا لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر ( پ 26، سورہ فتح، آیت 1)
ترجمہ: بے شک ہم نے تمہارے لئے روشن فتح دی تاکہ اللہ تمہارے سبب سے گناہ بخشے تمہارے اگلے کے اور تمہارے پچھلوں کے- ( اعلٰی حضرت )
ترجمہ: ہم نے فیصلہ کر دیا تیرے واسطے صریح فیصلہ تاکہ معاف کرے تجھ کو اللہ جو آگے ہوئے تیرے گناہ اور جو پیچھے رہے۔ (شاہ عبد القادر)
ترجمہ: تحقیق فتح دی ہم نے تجھ کو فتح ظاہر تو کہ بخشے واسطے تیرے خدا جو کچھ ہوا تھا پہلے گناہوں سے تیرے اور جو کچھ پیچھے ہوا- ( شاہ رفیع الدین)
ترجمہ: ہر آئینہ ما حکم کر دیم برائے توبفتح ظاہر عاقبت فتح آنست کہ بیا مرز ترا خدا آنچہ کہ سابق گزشت از گناہ تو و آنچہ پس ماند -( شاہ ولی اللہ )
ترجمہ: بے شک ہم نے آپ کو ایک کھلا فتح دی تاکہ اللہ آپ کی سب اگلی پچھلی خطائیں معاف کر دے- ( عبد الماجد دریا بادی دیوبندی)
ترجمہ: اے پیغمبر یہ حدیبیہ کی صلح کیا ہوئی در حقیقت ہم نے تمہاری کھلم کھلا فتح کرا دی تا کہ تم اس فتح کے شکریہ میں دین حق کی ترقی کےلئے اور زیادہ کوشش کرو اور خدا اس کے صلے میں تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دے- ( ڈپٹی نزیر احمد دیوبندی)
ترجمہ: بے شک ہم نے آپ کو ایک کھلم کھلا فتح دی تا کہ اللہ تعالٰی آپ کی سب اگلی پچھلی خطائیں معاف فرما دے- ( تھانوی دیوبندی )
ترجمہ: اے محمد ہم نے تم کو فتح دی- فتح بھی صریح و صاف تا کہ خدا تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دے- ( فتح محمد جالندھری یہی ترجمہ محمود الحسن کا ہے)



فان یشاء اللہ تختم علٰی قلبک ( پ25، سورۃ شورٰی آیت24)
ترجمہ: اور اگر اللہ چاہے تو تمہارے دل پر اپنی رحمت و حفاظت کی مہر لگا دے۔ ( اعلٰی حضرت)
ترجمہ: پس اگر خواہد خدا مہر نہد بر دل تو۔ ( شاہ ولی اللہ )
ترجمہ: اگر خدا چاہے تو اے محمد تمہارے دل پر مہر لگا دے۔ ( فتح مھًد جالندھری)
ترجمہ: پس اگر چاہتا اللہ، مہر رکھ دیتا اوپر دل تیرے کے۔ ( شاہ رفیع الدین)
ترجمہ: سو اگر اللہ چاہے مہر کر دے تیرے دل پر۔ ( شاہ عبدالقادر)
ترجمہ: تو اگر اللہ چاہے تو آپ کے قلب پر مہر لگا دے۔ ( عبدالماجد دریا بادی دیوبندی )
ترجمہ: سو خدا اگر چاہے تو آپ کے دل پر بند لگا دے۔ (سابقہ ترجمہ) ‘ دل پر مہر لگا دے‘۔ ( اشرف علی تھانوی دیوبندی)





ولئن اتبعت اھوا ئھم من بعد ماجائک من العلم انک اذا لمن الظلمین (پ2، سورۃ بقرہ، آیت 145)
ترجمہ: اور ( اسے سننے والے کے باشد*) اگر تو ان کی خواہشوں پر چلا بعد اس کے کہ تجھ علم چکا تو اس وقت تو ضرور ستم گار ہو گا۔ ( اعلٰی حضرت )
ترجمہ: اور کبھی چلا تو ان کی پسند پر بعد اس علم کے جو تجھ کو پہنچا تو تیرا کوئی نہیں اللہ کے ہاتھ سے حمایت کرنے والا نہ مدد گار ۔( شاہ عبدالقادر*)
ترجمہ: اور اگر پیروی کرے گا۔ تو خواہشوں ان کی پیچھے اس چیز سے کہ آتی تیرے پاس علم سے نہیں واسطے تیرے اللہ سے کوئی دوست اور نہ کوئی مددگار - ( شاہ رفیع الدین )
ترجمہ: اگر پیروی کر دی آرزو ہائے باطل ایشاں راپس آنچہ آمدہ است بتواز دانش نہ باشد ترا برائے خلاص از عزاب خدا ہیچ دوستی ونہ یارے ہند - ( شاہ ولی اللہ )
ترجمہ: اور اگر آپ بعد اس علم کے جو آپ کو پہینچ چکا ہے ان کی خواہشوں کی پیروی کرنے لگے تو آپ کیلئے اللہ کی گرفت کے مقابلے میں نہ کوئی یار ہو گا نہ مدد گار۔ ( عبدالماجد دریا بادی دیوبندی )
ترجمہ: اور اے پیغمبر اگر تم اس کے بعد کہ تمہارے پاس علم یعنی قرآن آ چکا ہے ان کی خواہشوں پر چلے تو پھر تم کو خدا کے غضب سے بچانے والا نہ کوئی دوست اور نہ مدد گار۔ ( ڈپٹی نزیر دیوبندی و فتح محمد جالندھری*)
ترجمہ: اور اگر آپ اتباع کرنے لگیں ان کے غلط خیالات کا علم قطعی ثابت بالوجی آچکنے کے بعد تو آپ کا کوئی خدا سے بچانے والا نہ یار نکلے نہ مددگار۔ (تھانوی دیوبندی




ما کنت تدری ما الکتب ولا الایمان ( پارہ 25 سورۃ شورٰی آیت 52 )
ترجمہ : اس سے پہلے نہ تم کتاب جانتے تھے نہ احکام شرع کی تفصیل ۔ (سیدی اعلٰیحضرت )
ترجمہ : تو نہ جانتا تھا کہ کیا ہے کتاب اور نہ ایمان۔ ( شاہ عبد القادر )
ترجمہ : تم نہ تو کتاب کو جانتے تھے اور نہ ایمان ( فتح محمد جالندھری )
ترجمہ : نہ جانتا تھا تو کیا ہے کتاب اور نہ ایمان ( شاہ رفیع الدین )
ترجمہ : نمی دانستی کہ چیست کتاب ونمی دانستی کہ چیست ایمان ( شاہ ولی اللہ )
ترجمہ : تمہیں کچھ پتا نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے ۔ ( مودودی )
ترجمہ : آپ کو نہ یہ خبر تھی کتاب کیا چیز ہے اور نہ یہ کہ ایمان کیا چیز ہے ۔( عبدالماجد دریابادی دیوبندی )
ترجمہ : تم نہیں جانتے تھے کہ کتاب اللہ کی کیا چیز ہے اور نہ یہ جانتے تھے کہ ایمان کس کو کہتے ہیں ۔ ( ڈپٹی نذیر احمد دیوبندی )
ترجمہ : آپ کو یہ نہ خبر تھی کہ کتاب ( اللہ ) کیا چیز ہے اور نہ یہ خبر تھی کہ ایمان کا (انتہائی کمال ) کیا چیز ہے ۔ (اشرف علی تھانوی دیوبندی




الرحمٰن ہ علم القرآن ہ خلق الانسان ہ علمہ البیان ہ (پارہ 27 سورۃ الرحمٰن آیت 1 تا 4 )
ترجمہ : رحمٰن نے اپنے محبوب کو قرآن سکھایا ، انسانیت کی جان محمد کو پیدا کیا ، ماکان و مایکون کا بیان انہیں سکھایا۔( اعلٰی حضرت )
ترجمہ :: رحمٰن نے سکھایا قرآن ، بنایا آدمی ، پھر سکھائی اس کو بات ( شاہ عبد القادر )
ترجمہ :: رحمٰن نے سکھایا قرآن ، پیدا کیا آدمی کو ، سکھایا اس کو بولنا۔ ( شاہ رفیع الدین )
ترجمہ :: خدا آموخت قرآن را ، آفرید آدمی راوآمو ختش سخن گفتن- ( شاہ ولی اللہ )
ترجمہ ::*خدائے رحمٰن ہی نے قرآن کی تعلیم دی ، اس نے انسان کو پیدا کیا ۔ اس کو گویائی سکھائی -( عبد الماجد دریا بادی دیوبندی )
ترجمہ : جنوں اور آدمیوں پر خدائے رحمان کے جہاں اور بےشمار احسانات ہیں ازاں جملہ یہ کہ اسی نے قرآن پڑھایا اسی نے انسان کو پیدا کیا پھر اس کو بولنا سکھایا ۔( ڈپٹی نذیر احمد دیوبندی




لا اقسم بھذا البلد ( پ30، سورۃ بلد، آیت 1)
ترجمہ) مجھے اس شہر کی قسم کہ اے محبوب تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔ (اعلٰی حضرت )
ترجمہ) قسم کھاتا ہوں اس شہر کی اور تجھ کو قید نہ رہے اس شہر میں۔ ( شاہ عبدالقادر )
ترجمہ) قسم کھاتا ہوں میں اس شہر کی اور تو داخل ہونے والا ہے بیچ اس شہر کے۔ ( شاہ رفیع الدین)
ترجمہ) قسم می خورم بایں شہر ۔ ( اشرف علی تھانوی دیوبندی)
ترجمہ) میں قسم کھاتا ہوں اس شہر مکہ کی۔ ( عبدالماجد دریا بادی دیوبندی)
ترجمہ) میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی۔ ( محمود الحسن)
ترجمہ) ہم اس شہر مکہ کی قسم کھاتے ہیں۔ ( ڈپٹی نذیر احمد دیوبندی)
ترجمہ) قسم کھاتا ہوں اس شہر کی۔ ( مودودی وہابی




یا ایھا النبی (پارہ 10 سورہ انفال آیت 64 )
ترجمہ : اے غیب کی خبریں بتانے والے ( اعلٰی حضرت )
ترجمہ : اے نبی ( شاہ عبدالقادر )
ترجمہ : اے نبی ( عبد الماجد دریا بادی دیوبندی )
ترجمہ : اے پیغامبر ( شاہ ولی اللہ)
ترجمہ : اے پیغمبر ( ڈپٹی نذیر احمد دیوبندی )
ترجمہ : اے نبی ( شاہ رفیع الدین )
ترجمہ : اے نبی ( اشرف علی تھانوی دیوبندی




وما اھل بہ لغیر اللہ (پ 2 سورہ بقرہ ‘ آیت 173)
ترجمہ : اور وہ جس کے ذبح میں غیر خدا کا نام پکارا گیا ھو- (اعلٰی حضرت )
ترجمہ : اور جس پر نام پکارا اللہ کے سوا کا- (شاہ عبد القادر )
ترجمہ : اور جس جانور پر نام پکارہ جائے اللہ کے سوا کسی اور کا- (محمود الحسن )
ترجمہ : اور جو کچھ پکارا جاوے اوپر اس کے واسطے غیر اللہ کے - ( شاہ رفیع الدین)
ترجمہ : وا آنچہ نام غیر خدا بوقت ذبح او یادکردہ شود-(شاہ ولی اللہ)
ترجمہ : اور جو جانور غیر اللہ کے لئے نا مزد کر دیا گیا ھو-(عبد الماجد دریا بادی دیو بندی
ترجمہ : اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے حرام کر دیا ھے - ( اشرف علی تھانوی دیو بندی




انٌ للمنافقین یخا دعون اللہ وھو خا دعھم (پ 5، سورہ نسآء،آیت : 142 )
ترجمہ: بے شک منافق لوگ اپنے گمان میں اللہ کو فریب دیا چاھتے ھیں اور وھی ان کو غا فل کرکے مارے گا (اعلٰی حضرت )
ترجمہ: منافقیں دغا بازی کرتے ھیں اللہ سے اور اللہ بھی ان کو دغا دے گا ۔ ( ترجمہ عاشق الٰہی میر ٹھی ، شاہ عبد القادر صاحب، مولانا محمود الحسن صاحب)
ترجمہ: اور اللہ فریب دینے والا ھے ان کو -(شاہ رفیع الدین صاحب)
ترجمہ: خدا ان ھی کو دھوکہ دے رھا ھے۔ ( ڈپٹی نذیر احمد صاحب )
ترجمہ: اللہ انھیں کو دھوکہ میں ڈالنے والا ھے۔ ( فتح محمد صا حب جا لندھری )
ترجمہ: وہ ان کو فریب دے رہا ہے۔ ( نواب وحید الزّمان غیر مقلّد و مرزا حیرت غیر مقلّد دہلوی و سیٌد عرفان علی شیعہ )

قل اللہ اسرع مکرًا (پارہ 11 سورہ یونس آیت 21)
ترجمہ: تم فرمادو اللہ کی خفیہ تدبیر سب سے جلد ہوتی ہے۔ (اعلٰی حضرت )
ترجمہ: کہہ دو اللہ سب سے جلد بناسکتا ہے حیلہ ( شاہ عبدالقادر ، فتح محمد جالندھری دیوبندی ، محمودالحسن صاحب دیوبندی ، عاشق الٰہی دیوبندی میرٹھی)
ترجمہ: کہہ دو اللہ بہت جلد کرنے والا ہے مکر ۔ (شاہ رفیع الدین )
ترجمہ: اللہ چالوں میں ان سے بھی بڑا ہوا ہے ( عبدالماجد دریا بادی دیوبندی )
ترجمہ: کہہ دے اللہ کی چال بہت تیز ہے ( نواب وحید الزّمان غیرمقلّد




ان آیات کے ترجمہ میں اللہ تعالٰی کے لئے مکر کرنے والا، چال چلنے والا، حیلہ کرنے والا کہاگیا ہے ، حالانکہ یہ کلمات کسی طرح اللہ کے شان کے لائق نہیں ،

نسوا اللہ فنسیھم (پ 10 ، سورہ توبہ،آیت 67،)
ترجمہ: وہ اللہ کو چھوڑ بیٹھے تو اللہ نے انہیں چھوڑ دیا‘- (اعلٰی حضرت )
ترجمہ: یہ لوگ اللہ کو بھول گئے اور اللہ نے ان کو بھلا دیا۔( فتح محمد دیو بندی جا لندھری ڈپٹی نذیر احمد دیوبندی)
ترجمہ: وہ اللہ کو بھول گئے اللہ ان کو بھول گیا۔ ( شاہ عبد القادر صا حب ، شاہ رفیع الدین صاحب ، شیخ محمود الحسن دیو بندی




اللہ تعالٰی کے لئے بھلا دینا،بھول جانے کے لفظ کا استعمال اپنے مفہوم اور معنٰی کے اعتبار سے کسی طرح درست نہیں ہے ، کیونکہ بھول سے علم کی نفی ہوتی ہے اور اللہ تعالٰی ہمیشہ عالم الغیب و الشہادۃ ہے۔ مترجمین کرام نے اس آیت کا لفظی ترجمہ کیا ہے جس کا نتیجہ ہر پڑھنے والے پر ظاہر ہے ۔
بحوالہ
( رضاء المصطفٰے اعظمی خطیب نیو میمن مسجد و مہتمم المجد واحمد رضا اکیڈمی کراچی )
http://www.faizeraza.net/forum/showthread.php?t=52





تلاوت و ترجمہ قرآن مجید کنزالایمان سے مستفید ہونے کے لیۓ




یہاں کلک کریں




http://faizaneattar.net/AL-QURAN/Surah/Index.html



Wednesday, April 13, 2011

احادیث نجد

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشنگوئیاں


عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انھوں نے کہا "ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: "اے اللہ! ہمارے لیے شام میں برکت نازل فرما، اے اللہ! ہمارے لیے یمن میں برکت نازل فرما۔" لوگوں نے کہا: "اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اور ہمارے نجد (عراق) کیلیے بھی (دعا کریں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے اللہ! ہمارے لیے شام میں برکت نازل فرما، اے اللہ! ہمارے لیے یمن میں برکت نازل فرما۔" لوگوں نے کہا: "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے نجد کیلیے بھی دعا کریں؟" میں سمجھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ فرمایا: "وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور وہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔


(بخاری، کتاب الفتن، باب قول النبی:الفتنۃ من قبل المشرق:7094) طبرانی کبیر:13422) کتاب المعرفۃ و التاریخ: باب ما جآء فی الکوفہ:1/742) مسند احمد:143/2) (المعجم الآوسط للطبرانی:4110، مجمع الزوائد:208/



حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "کفر کا سرچشمہ مشرق کی طرف ہے


" (بخاری، کتاب بدء الخق:3301، ابن حبان:7255)



جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "لوگوں کی سختی اور جفا مشرق میں ہے اور ایمان اہل حجاز میں ہے"



(مسلم، کتاب الایمان: 52، ابن حبان: 7252)



Google Earth



ذیل میں سعودی نجد کا نقشہ پیش خدمت ہے جس سے بالکل واضع ہےسعودی نجد ہی مدینہ شریف کےعین مشرق میں واقع ہے۔ اورعراق مسجد نبوی شریف کے شمال کی سمت ہے









پہلی ویڈیو پر غور کریں یہ شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کس طرح کستاخی کرتا ہے اور دوسری ویڈیو میں یہ محمد بن عبدالوہاب نجدی اور بادشاہ سعود کانام کس طرح احترام سے لیتا ہےـ




صرف اللہ تعالیٰ کو ماننا اور رسالت کا تصوّر درمیان سے ہٹا دینا کفر ہے اور سراسر گمراہی ہے کفّار عرب بھی خدا تعالیٰ اور اس کی صفات کو عملی طورپر مانتے تھے لیکن سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور کمالات کو دل سے نہ مانا تو جہنم کے نچلے اور سخت ترین طبقے میں گرے۔